Custom Search

Tuesday, 14 February 2012

Importance (value) of women in Islam



بیٹیاں الله کی رحمت ہوتی ہیں ، ان کو کبھی بھی بوجھ نہ سمجھو ، ان کو الله کی امانت سمجھ کر شفقت اور محبت سے پالو اور ان کی اچھی دینی اور دنیاوی تربیت کرو ،
آپ کا ایسا کرنا آپ کو جنت کا حقدار بنا دے گا ان شاء الله :)
____________________________

اسلام میں عورت کا مقام ! 
____________________ 

اسلام سے قبل صنف نازک کی حالت زار 
----------------------------------------------
انسانوں نے ہمیشہ صنفِ نازک پر ظلم کیا ، یہودیوں نے عورت کو گناہ کی ماں ، بدی کی جڑ اور انسانیت کے ماتھے پر ایک کلنک قرار دیا تو عیسائیوں نے اسے انسان تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا ، روم میں کئی سال کے بحث ومباحثے کے بعد پادریوں نے عورت کو انسان نما ایک چڑیل قرار دیا ،جو نسل انسانی کو دوزخ میں پہنچانے کے لئے انسان کے بھیس میں آئی ہوئی ہے ۔ ہندو مت میں بچی کی پیدائش کو منحوس سمجھا جاتا ، شادی کے بعد بد قسمتی سے اگر اس کا شوہر انتقال کرجاتا تو اسے ان دونوں راہوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ باقی ہی نہیں رہ جاتا :

1) یا تو وہ اپنے لئے موت سے بدتر زندگی کا انتخاب کر لے 
۔2) یا شوہر کی چتا کے ساتھ ہی زندہ آگ میں جل کر راکھ کا ڈھیر ہوجائے ۔ 

عرب میں بچی کی پیدائش کو ذلّت سمجھا جاتا، کچھ تو اس حیثیت سے کہ لڑکوں کے مقابل ،حصول روزگار کے سلسلے میں بچیوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ میدان جنگ میں بہادری کے کرتب دکھا سکتی ہے ، بچیوں کو پیدائش کے ساتھ ہی زمین میں زندہ در گور کردیتے ، اور کچھ اس جھوٹی غیرت کی بنا پر بچیوں کو قتل کردیتے کہ میری بچی کسی شخص کی زوجیت میں نہیں جاسکتی ۔اگر کسی کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی وہ مارے شرم کے لوگوں سے نظریں بچا بچا کر پھرتا ، 
جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے :
ترجمہ :جب ان میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر سیاہی چھا جاتی ہے ، اور وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے ، اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (کہ اس کے بعد کیا منہ دکھائے ) (منصوبے بناتا ہے کہ ) اس بیٹی کو ذلّت کے ساتھ لئے رہے یا زمین میں دبا دے ( زندہ در گور کردے ) یہ لوگ کیا ہی بُرے فیصلے کرتے ہیں ۔( النحل : 58/59)

علاوہ ازیں وضع حمل کے وقت گھر میں ایک گڑھا کھود کر تیار رکھا جاتا ، اگر نو مولود لڑکا ہو تو اسے گڑھے سے نکال لیا جاتا ، اگر بچی ہو تو اسے اسی گڑھے میں رکھ کر زندہ زمین میں دفن کردیا جاتا ۔اور قساوت قلبی کا عالم یہ ہوتا کہ اس پر فخر بھی کیا جاتا ، 
ایک جاہل شاعر کہتا ہے :ترجمہ :میری بچی میری زندگی چاہتی ہے اور میں اس پر شفقت کی وجہ سے اس کی موت چاہتا ہوں ، اور عورتوں کے لئے موت ہی سب سے بہترین تحفہ ہے ۔

عورت اسلام کے دامن شفقت میں
----------------------------------------
ایسے زمانے اور ایسے ماحول میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمارے پیغمبر جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمة للعالمین بنا کر مبعوث کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحمت کے خزانے جہاں ساری انسانیت پر لٹائے ، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شفقتوں سے صنفِ نازک کو بھی نہال کردیا ، اور بچوں اور عورتوں کے لئے خصوصی احکامات عطا فرمائے ،کمانے کی ذمہ داری مرد پرڈال کر عورت کو فکر معاش سے آزاد کردیا ، تاکہ وہ کسب معاش کے سنگلاخ میدان میں ماری ماری نہ پھرے ،تاکہ وہ ممتا اپنے بچوں پر نچھاور کرے ، اپنی عفت اور شوہر کے گھر کی حفاظت کرے اسے شرم وحیا کی چادر دی ، تاکہ وہ اپنے گھر کی چہار دیواری میں رہ کر، آوارہ عاشقوں اور پرستاران حسن کی ہوسناک نگاہوں سے اپنے تقدس اور لطافت کی حفاظت کرے، اسلئے کہ :
نہ رکھ سکے گی لطافت جو زن ہے بے پردہ
سبب یہ ہے کہ نگاہوں کی مار پڑتی ہے

-1- عورت جب ماں بنتی ہے تو اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کائنات میں ماں کا حق بتلایا، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ فرماتے ہیں : ایک شخص رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور کہا : اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سی ہستی میرے حُسنِ سلوک کی سب سے زیادہ مستحق ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری ماں ۔اس شخص نے پوچھا : پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا : پھر کون ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہاری ماں ۔ اس شخص نے پوچھا : پھر کون ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تمہارا باپ .(بخاری)
-1- نیز یہ فرماتے ہوئے انسانوں کو اپنی ماں کی خدمت پر ابھارا کہ اﷲ تعالیٰ نے جنت ماں کے قدموں کے نیچے رکھا رہے ۔
( صحیح الجامع الصغیر:۹۴۲۱)

-2عورت جب بیوی ہو ، تو نیک بیوی کو اس کائنات کی بہترین متاع قرار دیتے ہوئے فرمایا :-1 "دنیا ساری کی ساری سامانِ زندگی ہے اور اس متاعِ دنیا میں سب سے بہترین چیز نیک عورت ہے "۔ ( مسلم: ۷۶۴۱ )

-2- ایک اور حدیث میں مومن کے لئے تقویٰ کے بعد سب سے بہتر چیز نیک بیوی کو قرار دیا : ”مومن نے اللہ تعالی کے تقوی کے بعد نیک بیوی سے زیادہ بہتر چیز حاصل نہیں کی ، اگر وہ اسے حکم دیتا ہے تو اس کی اطاعت کرتی ہے ، اگر اس کی طرف دیکھتا ہے تو اسے خوش کردیتی ہے ، جب وہ اس پر قسم کھا بیٹھتا ہے تو اسکی قسم کو پوری کرنے میں مدد کرتی ہے ، اور جب وہ اس سے غیر حاضر ہو تو اسکے مال کی بھی حفاظت کرتی ہے اور اپنی آبرو کی بھی .( بن ماجہ)


-3- عورت جب بیٹی ہو تو بیٹیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا عالم یہ تھا ، مسند احمد کی روایت ہے :
-1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی غزوہ یا سفر سے لوٹتے تو سب سے پہلے مسجد آتے پھر اپنی لختِ جگر نورِ نظر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے جاتے ۔ (مسند احمد)


رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بچیوں پر محبت کے پھول اس طرح نچھاور کئے کہ رب کائنات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیٹی کی یاد آتی تھی –


ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے کلیجے کا ٹکڑا قرار دیکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ،جب انہوں نے ابوجہل کی بیٹی سے شادی کرنی چاہی تھی، ان الفاظ میں ڈانٹ پلائی تھی :
-2- بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اپنی بیٹی کا علی بن ابی طالب سے نکاح کرنے کی اجازت طلب کی ہے ، میں انہیں اس کی کبھی اجازت نہیں دے سکتا ، کیا ابو طالب کا بیٹا پسند کرے گا کہ وہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے شادی کرلے ؟ فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ، جوچیز اسے شک میں ڈالتی ہے وہ مجھے بھی مشکوک ہے ، اور جو چیزاسے تکلیف پہنچاتی ہے وہ میرے لئے بھی اذیّت ناک ہے ۔ 
( مسلم / حدیث نمبر2449 )
ایک اور روایت میں یوں ہے : -3 فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ، مجھے یہ نا پسند ہے کہ اسے آزمائش میں ڈالا جائے ، پھر آپ نے اپنے بڑے داماد حضرت ا بو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر فرمایا ، پھر فرمایا : یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ کے دشمن کی بیٹیاں ایک شخص کی زوجیت میں جمع ہوں ۔ ( المعجم الکبیر:20 / 19 )
چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کے ڈر سے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کی زندگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا ۔

بچیوں کی تربیت پر جنت کی بشارت
-------------------------------------------
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچیوں کو پالنے پوسنے اور ان کی اچھی تربیت پر والدین کو جنت کی خوش خبری عطا فرمائی ہے، بچیوں کو دوزخ سے آڑ کا باعث قرار دیا، نیز انہیں کھلانے پلانے کو جنت میں دخول کا سبب قرار دیا :

-1 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے دو بچیوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی ، وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا میں اس کے ساتھ ان انگلیوں کی طرح رہوں گا ،، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں (انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی ) کو ملایا ۔( رواہ مسلم )

-2 حضرت عائشة رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ایک مرتبہ ایک عورت اپنی دو بچیوں کے ساتھ کچھ مانگنے کے لئے میرے گھر میں آئی ، اس نے میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہیں پایا ، میں نے وہی ایسے دے دیا ، اس نے خود تو اس میں سے کچھ نہیں کھایا ، بلکہ اس کھجور کو دونوں بچیوں میں برابر بانٹ دیا، پھر نکل کھڑی ہوئی ، پھر میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، میں نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ان بچیوں کے ذریعے مصائب سے آزمایا جائے ، اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، تو یہ بچیاں اس کےلئے دوزخ سے آڑ بن جائیں گی ۔( متفق علیہ ) 

-3 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ایک مسکین عورت اپنی دو بچیوں کے ساتھ میرے گھر آئی ، میں نے اسے کھانے کے لئے تین کھجوریں دیں ، اس نے اپنی دونوں بچیوں کو ایک ایک کھجور دی اور ایک کھجور خود کھانے کے لئے اپنے منہ تک لے گئی ، اسی وقت اس کی دونوں بچیوں نے وہ کھجور اس سے مانگ لی ، اس نے اپنے حصّے کی کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور دونوں میں بانٹ دیا ، مجھے اس کا یہ کام پسند آیا ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ماجرا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی نے اس کے اس کام کی وجہ سے اس کے لئے جنت واجب کردی اور اسے جہنم سے آزاد کردیا ( رواہ مسلم )


بچیوں کی شادی میں جلدی
---------------------------------
بچیاں جب جوان ہوجائیں تو ان کی شادی کرنے میں خواہ مخواہ تاخیر نہیں کرنا چاہئے ، بالخصوص دور حاضر میں جب کہ فتنے عام ہیں ، اور برائی پر ابھارنے والے اسباب بے شمار ہیں ، اگر اﷲ تعالیٰ نے اسباب مہیا فرمادئے ہوں تو ایک مسلمان کے لئے سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنی بچی کی شادی کے فریضے سے سبکدوش ہوجائے ،
رسول اکرم1 نے اپنی کئی احادیث میں اس پر زور دیا ہے :
حضرت ابو ہریرہ 5سے مروی ہےکہ رسول اﷲ1 نے فرمایا : جب تمہارے پاس کسی ایسے شخص کی جانب سے پیغام نکاح آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم راضی ہو ، تو اس کے ساتھ (اپنی بچی کا) نکاح کردو ، اگر تم نے یہ نہیں کیا تو پھر زمین میں فتنہ وفساد برپا ہوگا،،۔ (ترمذی)

عموما لوگ شادی کے لئے دین دار سے زیادہ مالدار لڑکے لڑکیوں کی تلاش میں رہتے ہیں ، جب کہ دین دار لڑکیوں کے مقابلے میں مالدار لڑکیوں کی شادیاں عمومًا غیر پائیدار ثابت ہوتی ہیں ، کامیاب زندگی گذارنے کے لئے رسول اﷲ نے دین دار لڑکیوں سے شادی کرنے کی وصیت فرمائی :
” عورت سے چار چیزوں کی بنا پر شادی کی جاتی ہے ، اسکے مال کی وجہ سے ، خاندان کی وجہ سے ،حُسن اور دین کے سبب سے، تم دین والی کا انتخاب کرلو ، تمہارے ہاتھوں کو مٹی لگے ،،۔( متفق علیہ )
عموما یہ دیکھا جاتا ہے کہ غریب افراد اپنی بچیوں کی شادیاں جلد کردیتے ہیں ، اگر کسی کے پاس اسباب نہ بھی ہوں تو وہ صاحب خیر حضرات کے تعاون سے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں ، جب کہ خوش حال خاندان کے لوگ ڈاکٹر ، انجینیر ، تاجر ، ملازم پیشہ ،گاڑی کوٹھی کے چکر میں اپنی بچیوں کی شادیوں میں کافی تاخیر سے کام لیتے ہیں ،حتی کہ ہزاروں بچیان سن ایاس کو پہنچ جاتی ہیں ، ایسے ماں باپ سے عرض ہے کہ وہ اپنی بچیوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ سے ڈریں اور شادی کی عمر کو پہنچتے ہی بچیوں کی شادی میں دیری نہ کریں ، اس لئے کہ بعض اوقات اس کے بڑے ہی برے اور بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں اور آگ کے لگنے سے پہلے ہی اس کی تدبیر کرنا ہر عقل مند کے لئے ضروری ہے ، اس لئے کہ :
اے چشم اعتبار ذرا دیکھ تو سہی یہ گھر جو جل رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو


معاشرے کا افسوسناک پہلو
-----------------------------------
ہمارے معاشرے میں بھی بیٹوں اور بیٹیوں میں تفریق اور بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دینے کی وہی جہالت موجود ہے جو کبھی عربوں میں تھی ،کتنے لوگ ایسے ہیں کہ بیٹے کی پیدائش پر تو لڈّو بانٹتے پھرتے ہیں لیکن لڑکی کی پیدائش پر ان کا منہ لٹک جاتا ہے ، بیویوں سے روٹھ جاتے ہیں ، نہ صرف روٹھتے ہیں بلکہ کئی ایسے اشخاص ہیں جنہوں نے لڑکیوں کی پیدائش پر اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ،اور سینکڑوں ایسے ہیں کہ انہوں نے پیدائش کے بعد اپنی بچی کو دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا ، ہزاروں وہ ہیں جنہوں نے حالتِ حمل میں اپنی بیویوں کی طبّی جانچ کروائی اور جب انہی یہ پتہ چلا کہ آنے والا مہمان لڑکا نہیں بلکہ لڑکی ہے ، انہوں نے اپنی قساوتِ قلبی سے بیوی کو یہاں تک مجبور کیا کہ اسے اپنا حمل ساقط کروانا پڑا ، ایسے کئی واقعات ہیں جن میں اسقاط کے وقت ان گنت عورتوں کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوگئیں ، یہ بالکل وہی جہالتِ کبریٰ ہے جس میں ایامِ بعثت سے پہلے عرب قوم گرفتار تھی کہ وہ معصوم بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ۔

جیسا کہ فرمانِ الہی ہے :
جب کہ زندہ در گور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم میں مار دیا گیا ؟( تکویر : 8-9 )

اس لئے ہر مسلمان کے لئے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو ضروری ہے کہ وہ بچہ ہو یا بچی ہر ایک کو اللہ کی امانت اور اس کا تحفہ سمجھتے ہوئے قبول کرلے ، کیونکہ وہی قادرِ مطلق ہے ، وہی جو چاہتا ہے عطا کرتا ہے، 

فرمان الٰہی ہے :
اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت کا مالک ہے ، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہے لڑکے ، جسے چاہتا ہے لڑکے لڑکیاں ملا جُلا کر دیتا ہے ، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے ، بے شک وہ ہر چیز کو جاننے والا اور ہر چیز پر قادر ہے ۔ (الشوری : 49/50)

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ 
وہ تمام کے بچوں اور بچیوں کو نیک بنائے ، ان کے لئے نیک رشتے پیدا کرے ، جن کے گھروں میں جوان بچیاں بیٹھی ہوئی ہیں ، ان کی شادی کا غیب سے بندوبست فرمائے ، اور جنہیں بچیاں عطا فرمائی ہیں انہیں ان کی نیک تعلیم وتربیت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...